اُردُولُغت

اردو ذخیرہ الفاظ

آن لائن اردو لغت مفصل تلاش کے ساتھ

جنڈیال مندر کے خون خوار گدِھ

جنڈیال مندر کے خون خوار گدِھ

جنڈیال مندر چار اطراف سے گھنے جنگلوں میں گھرا تھا اور جنگلی حیات کی جنت سمجھا جاتا تھا۔
وہاں قریب سے ہی ایک پُر پیچ ندی گُذرتی تھی جس کے اطراف میں کثرت سے خودرو جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں اور آسمان سے باتیں کرتے ہوئے اونچے اونچے درخت تھے جن کی چوٹیوں پر اکثر گدِھ ٹولیوں کی صورت میں خاموش بیٹھے نظر آتے جو نہی انہیں قرب و جوار میں کہیں مردہ جانور کی بھنک پڑتی فوراً اُڑ کر پہنچتے اور

زندگی

زندگی

گاڑی پھر چلتے چلتے گرم ہونے لگی۔
زندگی کی گاڑی چلتے چلتے اپنے پٹے سے اتر جائے تو سورج کی تمام تمازت حدت بن کر مزاجوں میں اتر آتی ہے۔ دماغ بھاپ بن کر بھک سے اڑ جاتا ہے اور دھواں آنکھوں میں بھر کر دل کی لٹیا ڈبو دینے پر قادر۔۔۔
اوس چاٹے پیاس کہاں بجھتی ہے؟

فلیش بیک

فلیش بیک

آج دل کو عجیب ضد لگی ہے۔ کہتا ہے کہرے کے پار دیکھوں گا۔ دیکھ لے۔ مگر دھند چھٹے بھی تو سہی۔ یہ دھند کی چادر وقت نے تنی ہے۔ اسی لیے میرے اور میرے ماضی کے بیچ ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے میں ویڈیو گیم کھیل رہا ہوں۔ میں اپنے ارد گرد کھنچے ہوۓ حصار کو توڑنا چاہتا ہوں مگر وقت کمپیوٹر کے مکڑے کی طرح پھر جالا بن دیتا ہے۔

پّلو میں بندھی ناکامی

پّلو میں بندھی ناکامی

ایک تو دبلی پتلی کمزور، وہ دُکھ کی ماری بے چاری - - -!!!
آج چاند رات کا دن تھا، وہ ڈورے جا رہی ہے ' گود میں بچہ ایک ہاتھ میں دو بچے دامن سے لپٹے وہ بچے لگ ہی نہیں رہے تھے،
گویا وہ مٹی کے کھلونے ہوں، نہ چہروں پہ کوئی تصور نا جسم پر گوشت کپڑے کیا تھے، چھچھڑے لٹک رہے تھے،
پّلو سے باندھے وہ پیشے جو بن مانگے کسی "دان سَور" نے اُسے خاموشی سے دے دیے تھے،
ساری توجہ اُس گانٹھ پر ڈالے بچوں سے بے نیاز فکروں سے دوبدو بس بازار کی سمت ڈورے جا رہی تھی

بچپن

بچپن

بچپن کے پہلے چھ برس بہت ضروری ہوتے ہیں کہ ان ہی دنوں میں انسان کی پرسنیلٹی بنتی اور ابھرتی ہے۔ بعد کے وقت کے حالات اور واقعات گو اسے کچھ نہ کچھ تبدیل کر سکتے ہیں مگر ماہرین نفسیات کے فرمان کے مطابق انسانی نفسیات کا سانچہ انہی اولین سالوں ہی میں تشکیل پاتا ہے۔
ہمیں رات کے بچے باسی چاولوں پر نمک مرچ چھڑک کر کھا لینا آج بھی یوں مزے دار لگتا ہے جیسے رات کا بچا ہوا پیزا صبح ناشتے میں اپنا عجب سواد دے جاتا ہے۔

اردوکلاسیکل ادب زندہ ہے

اردوکلاسیکل ادب زندہ ہے

قدیم ہندوستانی راجواڑوں میں نوخیز دوشیزاؤں کو کتخدائی اور سوئمبر سے قبل عجیب وغریب رسومات سے گزرنا پڑتاتھا۔ پشتینی خادمائیں خاندانی خفیہ نسخوں کی مدد سے اناجوں، سوکھے پھولوں، پھلوں، بیجوں، نباتات کی چھٹک پھٹک اورحیوانات کے دودھ، چربیوں کی آمیزش سے وہ نادر حسن بخش، تازگی اور ناز کی عطا کرنے والے ابٹن بناتیں جو حسنِ نوخیزاں کو مزید چار چاند لگادیتے۔

ہنسے تو پھنسے

ہنسے تو پھنسے

پر ہمیشہ ترجیح دیتا چلا آیا ہے۔ ہماری شاعری نوے فیصد افسردگی، اداسی اور رنج و الم سے مزیں ہے۔ کہیں فکر معاش ہے تو کہیں فکر فردا۔ رہی سہی کسر محبوب کے ہجر و وصال نے یوں پوری کر دی ہے کہ محبوب کے قدموں میں بیٹھ کر آٹھ آٹھ آنسو بہائے بنا ہمارے شاعروں کے دل کو نہ دن کا چین میسر ہے، نہ رات کا آرام۔ پھر تقدیر کے شکوے نالے سے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے بعد ظالم سماج اور رقیب روسیاہ کے رونے شروع کیے جاتے ہیں۔۔۔

باجن دے باجنتری، سوئ پڑی نہ چھیڑ

باجن دے باجنتری، سوئ پڑی نہ چھیڑ

اگر مردوں کی بنائ دنیا کو درست کرنا ہے اور عورتوں کو ان کا اصل حق دینا ہے تو سب سے پہلے زبان اور زبان درازی درست فرمائ جائے۔
فیروز اللغات سمیت اب تو اردو کی ہر لغت بھی درست کرنا پڑے گی۔
خواتین کی بے حرمتی کرتے سارے محاورے، ضرب الامثال، روزمرہ، کہاوتیں کان پکڑ پکڑ کر نکالنے ہوں گے یا نگوڑی مرد جاتی پر تھوپ دینے ہوں گے۔۔۔

بُزدل کہیں کے

بُزدل کہیں کے

بیس برس کے چوچے سے تھے جب زندگی عملی میلے میں انگلی پکڑے گھمانے لے گئی۔ کنویں کے مینڈک کے لیے حیرتیں ہی حیرتیں تھیں۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ زندگی ہر شے، ہرجذبے اور ہر رَوّیے سے متعارف کرا رہی تھی۔ اونچ نیچ اور برا بھلا بتاۓ جاتی تھی۔ سامنے کھجور اور دہکتا انگارہ رکھ کے ابرو کے اشارے سے یہ کہہ کر آزمایا : انتخاب !!!
ہم نے کوئلے سے زبان جلا لی تو زندگی نے پیٹھ تھتھپا کر کہا : ہر چیز سونا نہیں ہوتی پیارے !

ماں

ماں

دنیائے فردوس کے پُر مسرت ترانوں میں وہ کشش نہیں اور نہ بربط شیریں سے نکلے ہوئے پُر فضا نغموں میں وہ شیرنی ہیں پہاڑی جھرنوں کی سہانی آوازایسی مسرور کُن نہیں اور نہ ہی سمندری ہوائوں کے جلترنگ میں وہ لطافت ہے۔