بُزدل کہیں کے
بیس برس کے چوچے سے تھے جب زندگی عملی میلے میں انگلی پکڑے گھمانے لے گئی۔ کنویں کے مینڈک کے لیے حیرتیں ہی حیرتیں تھیں۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ زندگی ہر شے، ہرجذبے اور ہر رَوّیے سے متعارف کرا رہی تھی۔ اونچ نیچ اور برا بھلا بتاۓ جاتی تھی۔ سامنے کھجور اور دہکتا انگارہ رکھ کے ابرو کے اشارے سے یہ کہہ کر آزمایا : انتخاب !!!
ہم نے کوئلے سے زبان جلا لی تو زندگی نے پیٹھ تھتھپا کر کہا : ہر چیز سونا نہیں ہوتی پیارے !