اُردُولُغت

اردو ذخیرہ الفاظ

آن لائن اردو لغت مفصل تلاش کے ساتھ

ماں

ماں

دنیائے فردوس کے پُر مسرت ترانوں میں وہ کشش نہیں اور نہ بربط شیریں سے نکلے ہوئے پُر فضا نغموں میں وہ شیرنی ہیں پہاڑی جھرنوں کی سہانی آوازایسی مسرور کُن نہیں اور نہ ہی سمندری ہوائوں کے جلترنگ میں وہ لطافت ہے۔

dewar-e-gareya

دیوارِ گریہ

مال بردار بحری جہاز کے عرشے کے غلیظ اور چکنے فرش پر تیل سے لتھڑے ہوئے موٹے رسوں کے بڑے سے بنڈل پر میں اور برائن بیٹھے تھے۔ گو کہ اس وقت ہم تھکے ماندے اور ساری دنیا سے بدظن تھے مگر حیرت سے ستاروں بھرے آسمان کو دیکھے جاتے تھے۔ ایک دوسرے سے منہ موڑے ہوئے کہ یوں مشقت کا احساس بڑھتا نہیں۔ ہم اپنے اپنے سگریٹ بے دریغ پھونک رہے تھے۔ اس سمے یہ واحد عیاشی تھی۔ ۔ ۔

رنگے ہوئے لیڈر۔         سلمان آفندی

رنگے ہوئے لیڈر۔ سلمان آفندی

پینتیس سالہ مرد ۔۔۔۔۔ خوش پوشاک ، خوش قامت چڑھی ہوئی مونچھیں پائوں میں چمکدار جوتا اور ریشمی جرابیں ،منہ میں قیمتی سگریٹ اور ہاتھ میں حسین و نازک بیت جس کی سنہری موٹھ ، اعلی درجےکے جواہر سے مرصع ،عالی شان ہوٹلوں میں کھانا کھاتا ہے

بڑا  دن

بڑا دن

آج------ اور ہر سال آج کے دن ،انسانیت اپنی گہری نیند سے بیدا رہو کر قوموں کی پر چھائیوں کے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور مسیح ناصری کو سولی پر لٹکا ہوا دیکھنے کےلیے اپنی آنکھوں۔۔۔۔۔ اشک آلود آنکھوں ۔۔۔۔ کا م

ادیب آفندی

ادیب آفندی

ستائیس سالہ جوان۔۔۔۔۔لمبی ناک چھوٹی چھوٹی آنکھیں ،ناپاک چہرہ ہاتھ روشنائی بھرے ہوئے ناخن میل سے اٹے ہوئے جسم پر پھٹے پرانے کپڑے جن پر جابجا تیل ،چکنائی اور قہوے کے داغ۔۔۔

محبت

محبت

محبت کو امر کرنا ہے تو اس شخص سے بچھڑ جاؤ جسے چاہت کی آخری حد تک چاہا ہے اس کی جدائی کا اپنا ایک حسن ہے۔
جدائی کی اپنی میٹھی میٹھی کسک زیست کے آخری لمحوں تک ساتھ رہتی ہے ۔

پس پردہ

پس پردہ

جب رات آدھی ہوئی تو راحیل نے آنکھیں کھولیں ،تھوڑی دیر تک چھت کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا اور بند کر لیں، پھر ایک گہرا مگر ٹوٹتا ہوا سانس بھرا، اور ایسی آواز میں جس سے موت کا شدید کرب ظاہر ہوتا تھا ،کہا۔جلوس سحر وادی کے کناروں تک پہنچ گیا ہے ہمیں اسے دیکھنے جانا چاہیے!

قیدی بادشاہ

قیدی بادشاہ

اپنا دل بھاری نہ کر! اے قیدی بادشاہ! تیرا قید خانہ تیرے لیے اس قدر ابتلا انگیز نہیں ہے جس قدر میرا جسم میرے لیے ہے!
صبر کر اور اطمینان سے بیٹھ جا !! اے ہیبت و جلال کے پیکر اعظم ! مصائب وآلام سے گھبرانا گیدڑوں کا کام ہے،

شاعر اعظم          بعلبک  112 ق م

شاعر اعظم بعلبک 112 ق م

بادشاہ تخت زر نگاہ پر جلوہ افروز تھا، جس کے چاروں طرف شمعیں اور عود و لوبان کی آنگیٹھیاں روشن تھیں۔ دائیں بائیں، درباری امیر اور مذہبی پیشوا بیٹھے تھے۔

قاہرہ ۔۔۔۔۔۔۔ مصر۔۔۔۔۔۔ 1912ء

قاہرہ ۔۔۔۔۔۔۔ مصر۔۔۔۔۔۔ 1912ء

ند طلوع ہوا اور اپنی سیمیں چادر شہر پر ڈال دی۔ اس وقت پر دائی سلطنت اپنے محل کے دریچہ میں بیٹھا صاف ستھری فضا کو دیکھ رہا تھا۔ ان قوموں کے آغاز انجام پر غور کر رہا تھا جو یکے بعد دیگرے نیل کے کنارے سے گزریں۔