اُردُولُغت

اردو ذخیرہ الفاظ

آن لائن اردو لغت مفصل تلاش کے ساتھ

https://www.urdulughat.pk/Post/buzdil-kahein-key

بُزدل کہیں کے

بُزدل کہیں کے

بیس برس کے چوچے سے تھے جب زندگی عملی میلے میں انگلی پکڑے گھمانے لے گئی۔ کنویں کے مینڈک کے لیے حیرتیں ہی حیرتیں تھیں۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ زندگی ہر شے، ہرجذبے اور ہر رَوّیے سے متعارف کرا رہی تھی۔ اونچ نیچ اور برا بھلا بتاۓ جاتی تھی۔ سامنے کھجور اور دہکتا انگارہ رکھ کے ابرو کے اشارے سے یہ کہہ کر آزمایا : انتخاب !!!
ہم نے کوئلے سے زبان جلا لی تو زندگی نے پیٹھ تھتھپا کر کہا : ہر چیز سونا نہیں ہوتی پیارے !
ایک بات تو بخوبی یاد رکھی کہ تربیت کے جو طریقے والدین کے ہوتے ہیں ، وہ زمانے کے نہیں ہوتے۔ زمانہ دہراتا نہیں ھے۔ آپشن نہیں دیتا۔ آپ نے کنویں اور کھائی سے خود بچنا ہوتا ھے۔محفوظ سمت کا تعین خود کرنا ہوتا ہے۔ اپنے پیٹ کی آگ خود بجھانا پڑتی ہے۔ نوالے بنے بناۓ منہ تک نہیں آتے۔ نصاب بندھا بندھایا نہیں ہوتا۔ بہت کچھ کی جستجو آپ کرنا ہوتی  ہے۔ روح پر چرکے بھی لگتے ہیں اور وجود پر نیل بھی پڑتے ہیں۔ زہر بھی چکھنا پڑتا ہے۔ موت سے دعا سلام رکھنی لازمی ہوتی ہے۔ واحد انسان وہ مخلوق ہے جو مہد سے لحد تک سیکھتی ہی رہتی ہے۔ ہنر کی علم کی طرح کوئی حد نہیں۔ چاہے آپ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوۓ ہوں یا کھردری زمین پر تولد ہوۓ ہوں ۔۔۔ ہر فن مولا بننے کے لیے کڑی محنت کی شرط آپ کو کوئی رعایت نہیں دیتی۔ اس خوش فہمی میں کبھی مت رہیے کہ دولت سے سب کچھ ممکن ہے اور اختیار ہر پتھر کو موم کر سکتا ہے۔ حالات آپ کو اپنی پیاس بجھانے کے لیے کبھی بھی کنواں کھودنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ دراصل زندگی چاہتی ہے کہ آپ روز محشر سے پہلے بھی عالمِ محشر میں رہیں تاکہ اپنے ہر فعل اور ہر احتیاج کے خود ذمہ دار ہوں۔ اپنے آپ کو جواب دہ ہوں۔ برے وقت میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ تعلقات تو دھویں کے مرغولے ہوتے ہیں۔ان کی بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اسی دنیا میں ہوتا ہے ایسا کہ آپ کے وجودی اعضاء آپ کے خلاف مدعی یا شاہد بن جاتے ہیں۔ 
اپنے ماحاصلِ زیست کو اپنی اولاد اور خیر خواہوں سے بانٹنا لازم ہے اگر چہ وہ خود بھی اسی طرح سیکھیں گے جس طرح آپ نے سیکھا۔ 
بعض اوقات ہم بلبلا اٹھتے ہیں۔ شکوے اور ناشکری پر اتر آتے ہیں۔ لیکن ہم اس ہستی (ﷺ) کے اسوہء مبارک کو بھول جاتے ہیں جو ربِ کائنات کی سب سے زیادہ محبوب ہے۔ آپﷺ چاہتے تو مکہ کے پہاڑ سونے کے بن کر آپﷺ کے تصرف میں آ جاتے۔ مگر نہیں۔۔۔ بلکہ آپﷺ اپنے جوتے کی مرمت خود فرما لیتے تھے۔ اپنے جامہ زیبِ تن پر پیوند خود لگا لیتے تھے۔ اپنے صحن میں جھاڑو خود پھیر لیتے تھے۔ یتیمی بھی دیکھی ، مسکینی بھی، امیری بھی ، بے یاری و مددگاری بھی، شعب ابی طالب کی اسیری بھی، اپنے پراۓ بدترین دشمنوں کی مخاصمت بھی، اولاد کے دکھ بھی، عزیز رشتوں سے محرومی بھی، ہجرت کا کرب بھی ، فاقے بھی اور وہ بھی ایسے کہ گھر کے چراغ میں اکثر تیل بھی نہیں ہوتا تھا اور اگر ہوتا تو جلانے کی بجاۓ پینے کو ترجیح دیتے۔ تمام حضرات انبیا و رُسل سلام اللہ علیھم کی مجموعی آزمائشیں ایک طرف اور آپ ﷺ کے مصائب ایک طرف۔ اتنے عظیم معلمﷺ کے طریقِ زیست کے باوجود ہم اپنی بےحیثیت و ناقابلِ ذکر  پریشانیوں پر چیخ اٹھتے ہیں۔۔۔ بزدل کہیں کے۔

ملتے جلتے آرٹیکلز