اُردُولُغت

اردو ذخیرہ الفاظ

آن لائن اردو لغت مفصل تلاش کے ساتھ

https://www.urdulughat.pk/Post/dadan-by-k-q-tanoli

dadab

دادن (جنگ ستمبر کے ایک شہید کی بیوہ)

ابھی چند دن قبل ہماری ایک قرابت دار بزرگ خاتون فوت ہو گئیں۔ ہم انھیں لاڈ بھرے احترام سے دادن کہا کرتے تھے۔ وہ تھیں بھی قابلِ محبت کیونکہ ساری دنیا کو وہ اپنی اولاد جیسا سمجھتی تھیں۔ شاعرانہ غلو نہیں ‛ سارے جہاں کا درد واقعی ان کے سینے میں سمٹا ہوا تھا اگرچہ ان کی اپنی حقیقی اولاد کوئی نہ تھی۔ ہو بھی کیسے سکتی تھی کہ جب ان کی شادی ہوئی اور وہ بابل کا گھر چھوڑ کر پیا گھر سدھاریں تو سہاگ رات کی سہانی ساعتوں سے قبل ہی محاذ جنگ سے بلاوا آ گیا اور دادن کا ڈھول سپاہی جاتے جاتے صرف اتنا ہی کہہ سکا : "سکینہ ! بہت جلد واپس آؤں گا۔" 
یہ 6 ستمبر 1965ء کی تاریخ تھی۔ جانے والا ایسا گیا کہ پھر اس کی خاک بھی واپس نہ آ سکی۔ دشمن کے ٹینک کے ساتھ ہی اس کے وجود کے بھی پرخچے اڑ گئے۔ ۔ ۔مگر دادن نے مرتے دم تک انتظار کو نہ مرنے دیا۔ بڑھاپے میں بھی ان کے ہاتھوں کی مہندی کی چھب اور کلائی کی چوڑیوں کی کھنک ماند اور مدہم نہ ہوئی۔
باہمی محبت کے تذکرے میں اگرچہ ان کا چہرہ گلنار ہوجاتا مگر بات جب شہادت تک پہنچتی تو ہمیشہ ان کا لہجہ گلوگیر ہو جاتا۔ ایک آس کی نادیدہ تَند سانس کی آخری تان تک جڑی رہی۔ 
شوہر کی پینشن کی ایک ایک پائی جب تک ایصال ثواب کے لیے ختمِ درود پاک پر نہ لگ جاتی ‛ انھیں قرار ہی نہ آتا تھا۔ 
ہم نے آج تک کسی عورت کو اتنے احترام اور الفت بھرے جذبات کے ساتھ اپنے شوہر کو یاد کرتے نہیں دیکھا۔ پتہ نہیں وہ اپنائیت اور دلارپن انھوں نے کہاں سے سیکھا۔ خود وہ حالانکہ ناخواندہ تھیں لیکن جذبات و احساسات کا ایک بے کنار قاموس (انسائیکلوپیڈیا) تھیں۔
ہمیشہ جس نے بھی انھیں ادائے خاص سے پکارا ‛ وہ کبھی ان کے ذہن سے محو اور دعاؤں سے خارج نہ رہا۔ غضب کا حافظہ پایا تھا۔
چائے کی بے حد رسیا تھیں مگر اپنے ہاتھوں کی بنی چائے پر کسی سمجھوتے یا مفاہمت کی قائل نہ تھیں۔ ہمیں متعدد بار ان کے ہاتھوں کی بنی چائے پینے کا شرف حاصل ہوا اور ہر بار ہم نے دیس بہ دیس کی چائیں یاد کر کے دادن کی بنی چائے کو ان پر فوقیت دی۔ ہمارا آج بھی یقین ہے کہ ذائقہ چیزوں میں نہیں بلکہ برتاؤ اور سلیقے میں ہوا کرتا ہے۔ یہ کہنا اضافی ہے کہ دادن متقی ‛پرہیز گار اور عبادت گزار تھیں۔ ہم خود گواہ ہیں کہ انھیں عصر کے وضو سے عشاء کی نماز ادا کرتے بے شمار بار دیکھا مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ انسان پرستی سے زیادہ انسان پسندی کی بھی سخت روادار تھیں۔ جہاں اور جب کبھی کسی غیر موجود فرد کی خامیوں کی نوبت آتی تو وہ موضوعِ محفل کو کسی اور طرف موڑ دیتیں لیکن اس طرح جیسے آج کل کے ٹی وی چینلز عمومی خبر کو بھی بریکنگ نیوز بنا دیتے ہیں۔
ایک بات رہ گئی ‛  یہ کہ وہ ذیابیطس کی دیرینہ مریضہ تھیں لیکن اس کو قابو رکھنے کا ان کے پاس ایک خانہ ساز نسخہ تھا۔ ہر کڑوی بوٹی اور پودے کی تازہ کونپلیں چن کر انھیں سائے میں سُکھا ‛ پیس اور سفوف بنا کر ایک مخصوص کوٹہ ان کے پاس ہمہ وقت موجود رہتا۔ وقت نا وقت اس کی چٹکی بھر مقدار پھانک لیتیں اور پھر کسی بھی نوع کا میٹھا ان کی نظر میں ممنوع نہ ہوتا تھا۔ ہم نے بھی ایک دو بار اس پھکی کا تجربہ کیا اور کئی دن تک منہ سے کڑواہٹ نہ گئی۔ کہتی تھیں کبھی کسی حکیم یا ڈاکٹر سے دوا لینے کی نوبت نہیں آئی۔ پچہتر برس کی عمر تک ان کی سماعت اور بصارت قابل رشک رہی۔ بصیرت کا تو موازنہ ہی مشکل ہے۔ ہم نے کم ہی انھیں فارغ بیٹھے دیکھا۔ وہ جمود کی بجائے حرکت کی قائل تھیں۔ سراسر خیر کا وسیلہ بنے رہنے پر بضد۔ دنیا میں بہت کم لوگ ہیں جو اپنی آمد کو رائیگانی سے بچا پاتے ہیں۔ وہ ان ہی قلیل لوگوں میں شمار ہوتی تھیں۔ یہاں ہم ان کی بعض شخصی خامیوں کا بھی ذکر کر سکتے ہیں لیکن فائدہ کوئی نہیں کہ وہ خامیاں اتنی بے ضرر اور معصوم تھیں کہ اب اگر انھیں گنوائیں تو دادن کی روح کو دھچکا پہنچے گا کیونکہ خود وہ ساری عمر دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتی رہیں۔
حضرت اقبالؒ نے مومن کی پہچان یہ بتائی کہ دمِ وداع اس کے ہونٹوں پر ایک مطمئن تبسم ہوتا ہے ۔۔۔ ویسے ہی مسکراہٹ مرتے وقت دادن کے لبوں پر بھی تھی۔ ایک مطمٸن روح اپنے رب سے راضی ہو کر ملی ہو گی۔ دادن شکوے کی بجائے صرف شُکر کا روپ تھیں۔

ملتے جلتے آرٹیکلز