آن لائن اردو لغت مفصل تلاش کے ساتھ
https://www.urdulughat.pk/Post/flash-back
آج دل کو عجیب ضد لگی ہے۔ کہتا ہے کہرے کے پار دیکھوں گا۔ دیکھ لے۔ مگر دھند چھٹے بھی تو سہی۔ یہ دھند کی چادر وقت نے تنی ہے۔ اسی لیے میرے اور میرے ماضی کے بیچ ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے میں ویڈیو گیم کھیل رہا ہوں۔ میں اپنے ارد گرد کھنچے ہوۓ حصار کو توڑنا چاہتا ہوں مگر وقت کمپیوٹر کے مکڑے کی طرح پھر جالا بن دیتا ہے۔ میں وقت کی آنکھ سے بچ کر اپنے قد کوچھوٹا کر لیتا ہوں۔ اب میں اس کے فوکس میں نہیں رہا۔ میرے ارد گرد دیواریں اونچی ہو گئی ہیں۔ گلیاں یک د م بہت چوڑی ہو گئی ہیں۔ رستے فاصلے بن گۓ ہیں۔ دن لمبے ہو گۓ ہیں۔ دکھ کم اور خوشیاں زیادہ ہو گئی ہیں۔
یکایک میرے کانوں میں ایک مانوس سی معصوم اورمترنّم آواز گونجتی ہے۔" لک چھپ جانا مکئ دا دانہ، راجے دی بیٹی آئی جے" میں چھپنے کے لیے جگہ ڈھونڈتا ہوں۔ چارپائی کے نیچے، بستر کی چادر میں، دروازے کی اوٹ میں۔ مگر راجے کی بیٹی مجھے ہر جگہ ڈھونڈ نکالتی ہے۔ خود مجھے بھی اسے مل جانا اچھا لگتا ہے۔وہ لمس مجھے بھگو دیتا ہے۔اس کی آنکھوں سے کامیابی کے چھینٹے اڑتے ہیں۔ میں بھیگتا رہتا ہوں۔ وہ سچ مچ راجے کی بیٹی لگتی ہے اور دس بارہ سال کی عمر میں تو ہر لڑکی راجے کی بیٹی ہوتی ہے۔
گلی کے موڑ پر افتی کھڑا ہے۔ وہ ہمیشہ وہیں کھڑا میرا انتظار کرتا رہتا ہے۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پرزم کی شکل بنا رکھی ہے۔ اس کے ہاتھوں سے کانچ کی بلّوروں کی آواز آ رہی ہے۔"کھیلو گے؟" "ہاں کھیلوں گا مگر ابّا جی کو مسجد تو جا لینے دو"۔ جانے کیا بات ہے افتی ہمیشہ مجھ سے ہار جاتا ہے بلکہ سب سے ہار جاتا ہے مگر کھیل کا چسکہ اسے گھر سے مزید پیسے مانگ کر نئی بلّوریں خریدنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ دوسروں کو ساتھ کھلانے کے لیے وہ بلّور ادھار بھی دیتا ہے۔ ایسا ادھار جو کبھی نہیں چُکتا۔ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے۔
"اٹھو بیٹا دیر ہو رہی ہے۔ سورج نکلنے والا ہے جلدی سے وضو کر کے نماز پڑھ لو۔ اللہ میاں خوش ہوں گے" ایک مہربان اور شفیق آواز مجھے جگا رہی ہے۔ میں کسمسا کر کروٹیں بدلتا ہوں۔ نیند کا غلبہ اللہ میاں کی خوشی پر حاوی ہو رہا ہے مگر دھیرے دھیرے ڈانٹ میں بدلتی ہوئی شفقت مجھے جاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ نماز جو فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ مجھ سے کچھ بھی ادا نہیں ہوتا۔ بس مجبوری کی محصوری میں ادھوری سی کوشش کرتا ہوں جو کبھی پوری نہیں ہوتی۔ مجھے ہمیشہ سے یہ خواہش رہتی ہے کہ فجر کی اذان سنوں اور "الصلاة خير من النوم" کے طلسماتی الفاظ کے ترنّم سے اپنے کانوں کو آشنا کروں۔ مگر صبح کے قریب کی نیند کا مزا ہی کجھ اور ہوتا ہے۔ ہر صبح آنکھ کھلتی ہے تو سرہانے بیٹھی میری امّی روح میں اترتے ہوۓ لحن کے ساتھ قرآن مجید پڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ میں اس لحن کو سننے کے لیے دیر تک آنکھیں موندے رکھتا ہوں۔
میرے سامنے "ریڈ ینٹ ریڈ نگ" کھلی ہے۔ مس نگہت ففتھ کلاس کو انگریزی پڑھا رہی ہیں۔ "گاڈ فرے گارڈن" والی نظم میری ٹیچر کے ہونٹوں سے کانونٹ والے تلفّظ میں پھسل رہی ہے "گاڈفرے گارڈن گسٹیوس گور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیور شٹ دا ڈور" ۔ مگر میری نظریں " دا بواۓ ہو لوڈ میوزک" والی کہانی کے سامنے بنی ہوئی تصویر پر ٹکی ہیں جس میں ایک بچّہ بڑی لجاجت سے بگھی میں بیٹھے اپنے باپ سے کہ رہا ہے " پلیز فادر ٹیک می ود یو"۔ میں ہمیشہ تصویروں میں اٹک جاتا ہوں۔ کہانی کوئی بھی ہو مجھ تک تصویرکے ذریعے ہی پہنچتی ہے۔ مجھ سے تیسری لائن میں بیٹھی روبیلہ ملک جمائی لیتے ہوۓ اپنی پتلی گوری انگلیوں کی پشت کو ادھ کھلے منہ پر پیانو بجانے کے انداز میں ٹکراتی ہے۔ میرے اندر جلترنگ بجنے کی آواز آنے لگتی ہے۔ طارق حسن اپنی ڈھیلی نیکر کو باربار اوپر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ فرقان اعظم چہرہ کتاب کی پیچھے چھپا کر چیونگم چبانے میں مگن ہے۔ طارق اقبال میرے ساتھ والے ڈیسک پر بیٹھا مس نگہت کا کارٹون بنانے میں مشغول ہے۔ کہانی چل رہی ہے۔ میں تصویریں دیکھ رہا ہوں۔
گورنمنٹ کالج کے اوپن ائر تھیئٹر میں پروفیسر رؤف انجم نے چند لڑکوں اور لڑکیوں کو دو گروپس میں تقسیم کر رکھا ہے۔ دونوں گروپ کورس کے انداز میں تھیئٹر کے دونوں سروں پر کھڑے ایسکیلس کے ڈرامے ایگامیمنان کی لائنیں پڑھ رہے ہیں۔ اتنے میں سلوت عزیز کلیٹم نیسٹرا کا روپ دھارے منظر میں داخل ہوتی ہے اور چلّا کر کہتی ہے " د یٹ از ناٹ اے بزنس آف یؤرز! آئي کلڈ ہم، آئی ڈسپیچڈ ہم اینڈ آئی ول ارتھ ہز بونز"۔ جان کیٹس کی نظموں کی طرح سہمی ہوئی روبینہ حنیف ایک کونے میں د بکی کھڑی ہے۔ اپریل کی صبح کی طرح کھلکھلاتی تسنیم انجم کی آنکھوں سے کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ یونانی دیوتاؤں سی وجاہت لیے منور شاہ خاموش کھڑا مسکرا رہا ہے۔ کتابی چہرے والی خالدہ قریشی چہرے پر تمکنت سجائے سب دیکھ رہی ہے۔ عمران گردیزی شیکسپیئر کے کلاؤن کی طرح پھد ک رہا ہے۔ گریک ٹریجیڈی کی یہ کلاس صرف کتاب کے ذریعے ہی نہیں ڈرامے کے کردار بن کر بھی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
کلاس ختم ہوتی ہے۔ میں چلتا ہوا اوول میں جابیٹھتا ہوں۔ میرے سامنے گورنمنٹ کالج کا عظیم الشّان ٹاور سر اٹھاۓ کھڑا ہے جس کا کلاک ہمیشہ ساڑھے چار بجاۓ رکھتا ہے مگر یہ کلاک اپنی سوئیاں روک سکتا ہے ، وقت کی سوئیاں نہیں روک سکتا۔ وقت ٹک ٹک پھر چل رہا ہے۔ مکڑے نے جالا بُننا شروع کر دیا ہے۔ دھند گہری ہو گئی ہے۔ میرا قد بڑھ گیا ہے۔ چیزیں چھوٹی ہو گئی ہیں۔ خوشیاں کم اور دکھ زیادہ ہوگۓ ہیں۔
Your email address will not be published. Required fields are marked *
3 Comment
Fletch Skinner
Cuppa the bee's knees the full monty bloke cockup pear shaped bubble and squeak lavatory naff, chip shop bodge burke do one have.!
ReplyHans Down
Dropped a clanger up the kyver easy peasy vagabond victoria sponge Charles tinkety tonk old fruit argy.!
ReplyHans Down
Dropped a clanger up the kyver easy peasy vagabond victoria sponge Charles tinkety tonk old fruit argy.!
ReplyChauffina Carr
Cuppa the bee's knees the full monty bloke cockup pear shaped bubble and squeak lavatory naff, chip shop bodge burke do one have.!
Reply