اُردُولُغت

اردو ذخیرہ الفاظ

آن لائن اردو لغت مفصل تلاش کے ساتھ

https://www.urdulughat.pk/Post/hawaldar-sachal-saein

حوالدار سچل سائیں

حوالدار سچل سائیں

 

ریل گاڑی سے سفر تھا۔ ہم مع اہل خانہ کراچی جا رہے تھے۔ بچوں کی سہولت کی خاطر ہم نے چھ نشستیں ریزرو کی ہوئی تھیں۔ رات کا کوئی پہر تھا۔ دیکھا کہ ریلوے پولیس کے ایک ہیڈ کانسٹیبل جو تقریباً ملازمت سے سبکدوشی کے قریب تھے‛ ہمارے کیبن کے بالائی برتھ سے کندھا ٹکائے کھڑے ہیں۔ بزرگی کا خیال رکھتے ہوئے ہم نے انھیں بیٹھنے کی آفر کی تو وہ ذرا جھجھکے مگر جب ہم نے ان کے لیے سپیس پیدا کی تو شکریہ ادا کرتے ہوئے  بیٹھ گئے۔ ابتدائی رسمی تعارف اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ہم نے ان کی مدت ملازمت بارے پوچھا تو فرمایا : "بس چھ ماہ رہ گئے‛ ساٹھ برس عمر کے اور انتالیس برس کی نوکری ختم ہونے میں۔ نصف سے زیادہ عمر ریل میں گزر گئی۔"
ہم نے پوچھا : "اور اتنے طویل عرصہ میں ترقی صرف حوالداری تک ؟"
ایک چبھتی ہوئی مسکراہٹ ابھری۔ بولے : "دو بار سب انسپیکٹری ملی تھی مگر تنزلی ہوتی رہی۔ خدا کو یہی منظور تھا۔"
انھوں نے سگریٹ سلگانی چاہی مگر بچوں کو دیکھ کر ارادہ بدل لیا۔ 
"ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ارادہ ہے؟"
ٹھنڈی آہ بھری اور کہا : "دو بیٹے ہیں ‛ گریجویٹ ‛ نوکری تو ملی نہیں۔ ایک سائیکلوں کو پنکچر لگاتا ہے‛ دوسرا گھر پر بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہے‛ ایک بیٹی کی شادی کر دی ‛ دو کے بر کا انتظار ہے۔ گریجویٹی اتنی ہی ملے گی کہ بیٹیوں کا فرض بمشکل ادا ہو گا۔ کچھ کمیٹیاں ڈال ڈال کر ایک پلاٹ خرید رکھا ہے مگر اپنے گھر کا خواب شاید ہی پورا ہو۔ حق حلال کی کمائی سے صرف پختہ قبر ہی بن سکتی ہے محل نہیں۔"
ڈائننگ کار کے بیرے نے چائے کی صدائی لگائی تو ہم نے دو کپ کا کہہ دیا لیکن سچل ابڑو صاحب نے ممنونیت کے ساتھ کہا : "کیا ضرورت تھی۔ میں چائے بہت ہی کم پیتا ہوں۔"
اب انھوں نے ایک ٹانگ دوسری پر رکھ دی اور بڑی تہذیب سے چائے کی چسکیاں لینے لگے اور مختلف 
معنی خیز واقعات سناتے گئے۔ خوش مزاجی اگرچہ ان کے لہجے سے مترشح تھی لیکن واقعات کا انتخاب ان کے باطنی دنیا کی عکاسی کرتا تھا۔ خود دکھی تھے۔ شاکر و صابر تھے۔ مسکراہٹ کو اپنی اذلی محرومیوں کے لیے آڑ بنا رکھا تھا۔ خود داری کی خبر تب ہوئی جب وہ واش روم کا بہانہ بنا کر اٹھے اور چائے کا بل ادا کر آئے۔ بیرا جب برتن لینے آیا اور ہم نے ادائیگی کرنا چاہی تو اس نے بتایا ‛ پیسے تو چاچا نے دے دیے ہیں۔ ہم نے ان کی طرف حیرت سے دیکھا تو ہنس پڑے۔ بولے : "کوئی بڑی بات نہیں۔"
ان کی ڈیوٹی روہڑی جنکشن تک تھی۔ ابھی دو ڈھائی گھنٹے باقی تھے۔ سچل سائیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد دو تین بوگیوں کا راؤنڈ  لگا کر واپس آتے اور گفتگو کےٹوٹے ہوئے سلسلے کو جوڑ دیتے۔ کہنے لگے : "ساتھ کے کئی لوگ مجھ سے آگے نکل گئے ‛ عہدے میں بھی اور کمائی میں بھی۔ ایسے ویسے آج کیسے کیسے ہو گئے۔ اس محکمے میں ہزاروں پینترے اور کھانچے ہیں کمانے کے۔۔۔ مگر سچ پوچھیں تو کبھی جرأت ہی نہ ہو سکی۔ کبھی رسک ہی نہیں لیا۔ آمدنی کی بالائی اوپر تک پہنچانی پڑتی تھی اور یہ مجھے گوارا نہ تھا۔  تاہم اگر فرض شناسی کے کسی غیر معمولی واقعے پر ترقی ملی بھی تو کچھ عرصہ بعد افسران بالا کی ناراضی نے ایک درجہ پیچھے جا پھینکا۔ جتھے دی کھوتی اتھے آن کھلوتی۔ بچوں کو لقمۂ حرام سے دور رکھا۔ ٹھیک ہے دنیا داری میں پیچھے ہوں لیکن ضمیر کو مایوس نہیں کیا۔ روح ہلکی پھلکی ہے۔ اور کیا چاہیے۔"
وہ کھڑکی سے باہر تاریکی میں کچھ جھانک رہے تھے تو ہم نے کنکھیوں سے ان کے پورے سراپے کا جائزہ لے لیا۔ کھچڑی بال‛ گھنی مونچھیں‛ پُرسوچ ملیح آنکھیں‛ گندمی رنگت‛ ماتھے پر خفیف سا  نشان ِ سجدہ‛ چہرہ مطمئن مگر سفر کی گرد سے آلود‛ وردی کی قمیص کے کھلے بٹنوں کے باعث پرانی بنیان کے رخنے اور سیاہ پشوری چپل میں پھٹی ہوئی ایڑیاں۔ ہاتھوں کی پشت پر گھنے سفید بالوں میں ابھری ہوئی شریانوں کا جال۔ کلائی میں قدیمی سیکو کی گھڑی اور دائیں ہاتھ کی انگلی میں گھسے ہوئے عقیق والی انگوٹھی۔ ان کے ہونٹ متحرک تھے ۔ غالباٌ کوئی ورد ہو گا یا ذات سے خود کلامی۔ 
روہڑی جنکشن آیا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ صبح کے چار بج رہے تھے۔ ہماری گود میں ذیشاں میاں سو رہے تھے اس لیے وداع کو نہ اٹھ سکے۔ انھوں نےگرمجوشی سے ہاتھ ملایا  بچے کے سر کو ملائمت سے چھوا ‛ دعا دی اور مٹھی میں دبا سو کا ایک نوٹ اس کی ٹی شرٹ کے گریبان میں شتابی سے اڑس دیا ‛ یہ ہمیں قبول نہ تھا مگر انھوں نے سرگوشی کی : "ششش ۔ ۔ ۔کاکا جاگ نہ جائے۔ خدا حافظ۔"
اور تیزی سے آگے بڑھ گئے۔
سچل سائیں کا سو کا وہ کرنسی نوٹ محض نوٹ نہیں بلکہ ایک سچے انسان کی طرف سے محبت کی یادگاری سند ہے جسے آج بھی ہم نے فریم کروا کر سنبھال رکھا ہے۔
آج سات سال بیت گئے۔ سفری تعلق اگر چہ عارضی ہوتے ہیں لیکن سچل سائیں سے بنا ہوا رشتہ کبھی ناپائیدار محسوس نہیں ہوا۔

ملتے جلتے آرٹیکلز