اُردُولُغت

اردو ذخیرہ الفاظ

آن لائن اردو لغت مفصل تلاش کے ساتھ

https://www.urdulughat.pk/Post/jandial-mandar-k-gidh

جنڈیال مندر کے خون خوار گدِھ

جنڈیال مندر کے خون خوار گدِھ

جنڈیال مندر چار اطراف سے گھنے جنگلوں میں گھرا تھا اور جنگلی حیات کی جنت سمجھا جاتا تھا۔
وہاں قریب سے ہی ایک پُر پیچ ندی گُذرتی تھی جس کے اطراف میں کثرت سے خودرو جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں اور آسمان سے باتیں کرتے ہوئے اونچے اونچے درخت تھے جن کی چوٹیوں پر اکثر گدِھ ٹولیوں کی صورت میں خاموش بیٹھے نظر آتے جو نہی انہیں قرب و جوار میں کہیں مردہ جانور کی بھنک پڑتی فوراً اُڑ کر پہنچتے اور پھر چند منٹوں میں گوشت کا صفایا ہو جاتا اس دوران آوارہ کُتوں سے بھی اُن کی آنکھ مچولی چلتی رہتی جو بیچ میں آکر ان کی ضیافت پر اپنا حق جتانے کی کوشش کرتے تھے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ یہ علاقہ گدِھوں کے نشیمن کے طور پر بھی پہچانا جاتا تھا گاؤں کے بوڑھوں سے یہ بھی سنا گیا تھا کہ گدِھ یہاں کئی صدیوں سے آباد چلے آتے تھے۔ گذشتہ چند برسوں سے ان کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مقامی لوگ تعمیرات کے لئے وہاں تلک پہنچ گئے تھے اور اُنہوں نے بے دردی سے درختوں کی کٹائی شروع کر رکھی تھی اس علاقے میں لوگوں کی دلچسپی کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ وہاں جانڈیال کا تاریخی مندر واقع تھا جسے دیکھنے کے لئے اکثر غیر ملکی سیاحوں کا آنا جانا رہتا تھا اور اس طرح روزگار کے کئی ذرائع بھی پیدا ہو گئے تھے درختوں کے جھنڈ میں گھری یہ پُراسرار قلعہ نما عمارت دُور سے بھوتوں کا مسکن معلوم ہوتی یو ں تو ماہرِ آثارِ قدیمہ سَر جان مارشل اور دیگر کئی موّرخوں نے اس تاریخی ورثے پر خاصا تحقیقی کام کیا تھا مگر اب بھی کئی سر بستہ راز ایسے تھے جن سے پردہ اُٹھانے کی ضرورت تھی۔
بّرصغیر پاک وہند میں جانڈیال  مندر ایک منفرد اور بے مثال اہمیت کی حامِل عمارت تصور کی جاتی ہے اِس کا تعمیراتی خاکہ یونان میں واقع حکمت و دانائی کی دیوی ایتھینا  کے مشہور پارتھین مندر سے ملتا جُلتا ہے اس کا رُخ شمال کی سمت اُس قدیم شاہراہ کی جانب ہے جو دریائے سندھ سے ہوتی ہوئی گندھارا کے دور دراز علاقوں سے جاکر ملتی تھی۔     326 قبلِ مسیح میں مشہور فاتح سکندرِ اعظم بھی اس راستے سے ٹیکسلا وارد ہوا تھا اور اس کے ساتھ آنے والے موّرخوں نے مقامی لوگوں کی جن رسومات کا مشاہدہ کیا اس میں انہوں نے انسانی نعشوں کو جلانے یا دفن کرنے کی بجائے گدِھوں کی خوراک بننے کا تذکرہ کیا تھا۔
جانڈیال کا قدیم مندر ٹیکسلا میوزیم سے تقریباً دو کلومیٹر  کے فاصلے پر واقع ہے اسے مٹی کے ایک اونچے ٹیلے پر تعمیر کیا گیا ہے یونانی طرزِ تعمیر کا شاہکار یہ مندر تقریباً 158فٹ لمبائی اور 81فٹ چوڑائی پر مشتمل ہے ۔سامنے کی جانب خاکستری رنگ کے ریتلے پتھروں کے بنے ہوئے دو گول ستون ہیں جو چورس کرسی پر ایستادہ کئے گئے ہیں۔خوبصورتی سے تراشے ہوئے یہ ستون آیونی مرغول اور برگ و پیکان کے علاوہ مختلف منکوں کے نمونوں سے مرصّع ہیں جب کہ ستونوں کی کرسی کو غلط اور گولو ں سے اور بھی نمایا ں کیا گیاتھا۔پتھروں پر کی جانے والی کند ہ کاری یونانی فن کا اعلیٰ نمونہ ہے ان کے متوازی دو ستون اور بھی ہیں جن پر چھت کا بوجھ سہارنے کیلئے شہتیر اور کڑیاں جوڑ کر رکھی گئی تھیں جنوبی برآمد ے سے داخل ہوں تو سامنے عبادت گاہ ہے جب کہ اسی کمرے کی دونوں جانب بڑی بڑی کھڑکیوں والی ہوا دار راہداری ہے اس سے گُذر کر پچھلی جانب جائیں تو وہاں ایک اور پورچ ہے۔بڑے دروازے سے ڈیوڑھی میں داخل ہوں تو چوڑی سیڑھیاں اوپر والی منزل پر لے جاتی ہیں۔ایتھنز کے بڑے مندر میں عبادت گاہ اور پچھلے پورچ کے درمیانی حصّہ میں کنواری دیوی ایتھینا کا معبد تھا جب کہ جانڈیال مندر میں اس کی جگہ سطح زمین سے لے کر اوپر تک پتھروں سے چنا ہوا ٹھوس چبوترا ہے جس کی بنیاد فرش سے 20 فٹ نیچے ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتنی گہری بنیاد یقینا ایک ایسے مینار کےلئے ہی کھودی گئی تھی جسکی بُلندی مندر کی چھت سے خاصی اونچی ہو گی چھت پر جانے کے لئے دو زینے اب بھی سلامت ہیں اس طرح کی مزید سیڑھیاں زگورٹ مینار کی طرز پر گھومتی ہوئی اوپر تک جاتی تھیں ان تمام شواہد کی روشنی میں اخز کیا گیا ہے کہ یہ زرتشتیوں کا خاموش مینار تھا جس پر کبھی مقدس آگ کا الاؤ روشن کیا جاتا تھا کُھدائی کے دوران سیڑھیوں پر سے مٹی کے گارے میں چنائی کی ہوئی چند جلی ہوئی اینٹیں بھی ملی ہیں جو شاید اس مینار کی تباہی کے وقت اوپر سے گری تھیں۔
آیونی طرزِ تعمیر سے پتا چلتا ہے کہ اس مندر کو دوسری صدی قبل مسیح کے لگ بھگ باختری یونانیوں نے تعمیر کیا تھا۔ اس کی باقیات میں بدھ مت، جین مت یا ہندو مت کے متعلق کوئی نشان نہیں ملا البتہ جنڈیال مندر کے بیچوں بیچ خاموش  مینار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کے بنانے والوں کا تعلق زرتشتی مذہب سے تھا۔
جب مشہور کرشماتی شخصیت کا حامل اپالونیسؔ والئی ٹیانا 44ء میں ٹیکسلا آیا تو اس نے اپنے شاگرد ڈیمسؔ کے ہمراہ اس مندر میں قیام کیا تھا۔اس وقت یہاں پارتھی حکمران گونڈو فارسؔ کی حکومت تھی اپالونیس ؔنے جنڈیال مندر میں کانسی کے چوکھٹوں میں آویزاں کئی تصاویر کا ذکر کیا ہے جس میں سکندرِاعظم ؔکی جہلم کے راجہ پورسؔ کے ساتھ لڑائی اور ملاقات کے کئی مناظر بھی تھے ان اعلیٰ نمونوں کی تصویروں میں پیتل چاندی اور سونے کے بنے ہوئے      ہاتھی،گھوڑے، سپاہی اور کئی اقسام کا جنگی سازوسامان دکھایا گیا تھا۔ اس سے بجا طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس دور میں قدیم تاریخ کو تصاویر کی مدد سے ٹیکسلا کے جنڈیال مندر میں محفوظ کرلیا جاتا تھا۔
ایک روز یذدؔ (ایران) سے ہمارے ایک عزیز تشریف لائے ان کا نام سہرابؔ مالی ہے وہ پیشے کے لحاظ سے انجنئیر ہیں اور برطانیہ میں ملازمت کرتے ہیں ان کے آباؤ اجداد زرتشتی مذہب کے پیرو کار تھے اور اب پانچ نسلوں سے مسلمان ہو چُکے ہیں۔اُنہیں تاریخ سے خاصا لگاؤ ہے میں نے باتوں باتوں میں جب جنڈیال مندر کا تذکرہ کیا تو وُہ اُسے دیکھنے کیلئے بے تاب ہوگئے۔
اُنہوں نے بتایا کہ کبھی ٹیکسلا سلطنت ِ ایران کا باقاعدہ حصّہ رہاتھا۔ جب ہخامنشی شہنشاہی سلسلے کے پہلے حکمران سائرس اعظم (558 - 529ق م) نے مشرقی جانب سے اپنی سرحدوں کو بڑھانا شروع کیا تو باختر (بلخ) کپسیا (کابل) اور گندھارا جس کا صدر مقام ٹیکسلا تھا کو اپنے تصّرف میں لے لیا۔ مشہور تاریخ دان ہیرو ڈوٹس کے بقول گندھارا ایرانی سلطنت کا بیسواں صوبہ تھا اور دولت کے لحاظ سے سب سے امیر ترین شمار ہوتا تھا ہنحا منشی زرتشت  نبی کے ماننے والے تھے جیسا کہ دارا ئے اول جو کہ سائرس کا پوتا تھا اور اس کے مرنے کے محض آٹھ برس بعد اقتدار پر فائز ہو ا تھا کے چند فرامین  استخر(شیراز) کے پہاڑی کتبوں میں آج بھی محفوظ ہیں ان میں زرتشت کی تعلیمات کا واضح عکس موجود ہے پتھر پر کندہ ان تحریروں میں خدائے واحد کی بزرگی بیان کی گئی ہے۔ عہد نامۂ قدیم کے صحیفوں ارمیا، حذقیئلؔ، دانیاؔل اوریسعیاؔ میں سائرس کا ذکر متعدد بار ملتا ہے جس میں خدا نے اسے اپنا چرواہا اور نجات دہندہ قرار دیا ہے یہ سائرس ہی تھا جس نے بابل  کی فتح کے بعد یہودیوں کو بخت نصر کی قید سے آزادی دلوائی اور بیت المقدس کی تعمیر میں حصہ لیا۔ خود پیغمبرِ اسلام حضرت محمدؐ نے بھی یمن کے زرتشتیوں کے ساتھ اہلِ کتا ب کا برتاؤ کیا تھا۔
”لیکن زرتشتی تو آگ پرست ہیں اور خاموش مینار بھی اسی سلسلے کی کڑی سمجھا جاتا ہے" میں نے حیرت سے پوچھا!!۔
سہراب مالی نے کڑوی چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور جھولا  کرسی  پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہنے لگے  ”ایران کا مطلب ہے آریاؤں کی سر زمین ! جس طرح انڈین آریا مظاہرِ قُدرت کی عبادت کرتے تھے اس طرح ایران کے لوگوں کے عقائد بھی ان سے ملتے جُلتے تھے جب انہیں سورج کی اہمیت کا اندازہ ہوا تو آگ کی پرستش شُروع کردی یہ لوگ موگوش کہلاتے تھے۔عربی موّرخوں نے انہیں موجوس لکھا ہے۔ جب زرتشت کا ظہور ہوا تو اس نے ان تمام فرسودہ روایات  کے خلاف ایک پاک خُدا”آہوراموزدہ“کا تصور دیا اور برائی کا منبع شیطان (اہرمن) کو قرار دیا۔ لیکن چوتھی صدی قبل مسیح میں مجوسی مذہب نے دوبارہ سر اٹھایا اور زرتشتی مذہب رفتہ رفتہ زوال پذیر ہونا شروع ہوگیا۔پھر سکندر ا عظم کی فتوحات کا سلسلہ چل نکلا اس نے مقدس آسمانی کتاب”ژند اوستا“ کے نسخے جلا ڈالے اور زرتشتی مذہب کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔بعد ازاں جب ساسانیوں نے اپنی حکومت قائم کی تو ان کے عہد کا سرکاری مذہب قدیم مجوسیت، زرتشتیت اور یونانی اثرات کا ملغوبہ بن چُکا تھا۔
سہراب مالی کے علمی استدلال سے بھر پور حقائق نے میری تمام گتھیاں سلجھا دی تھیں۔ 
اگلے روز جب ہم تیار ہو کر جنڈیال مندر کی سیر کو نکلے تو میں نے سہراب مالی کے کان میں یہ بات پھونک دی کہ ہم قدیم ٹیکسلا دیکھنے جا رہے ہیں اس لئے وہی راستہ اختیار کیا جائے گا جہاں سے کبھی شاہی سواریاں، جنگی رتھ،گھوڑسوار اور بیرونی حملہ آور آیا کرتے تھے چنانچہ ہم دونوں ایک لمبا چکر کاٹ کر جنڈیال مندر کے صدر دروازے پر پہنچ گئے مگر شومئی قسمت شاہی مہمانوں کے استقبال کیلئے سوائے چوکیدار کے کوئی بھی فوجی دستہ موجود نہیں تھا بلکہ عمارت کی زبوں حالی دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے ابھی ابھی کوئی حملہ آور لشکر ہر شے کو روندتا ہو ا گذر گیا تھا۔
ہمیں آئے ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ ایک غیر ملکی سیاح جوڑا بھی ادھر آنکلا۔علیک سلیک ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کا تعلق نیروبی(کینیا) سے ہے اور تلاش ِمعاش کے سلسلے میں برطانیہ ؔمیں سکونت پذیر تھے برطانیہؔ کا نام سن کر سہراب مالیؔ کے کان کھڑے ہوگئے اور پھر ہم لوگ جلد ہی ایک دوسرے سے گھل مل گئے۔
انہو ں نے بتایا کہ وہ ٹیکسلا کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اور ہر سال یہاں چھٹیاں گذارنے آتے ہیں وہ گندھارا تہذیب سے بے حد متاثر تھے باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ انہیں ٹیکسلا سے اس قدر محبت ہے کہ اپنی ننھی بیٹی کا نام بھی اس شہر کی مناسبت سے ادیس ابابائے ٹیکسلا ؔتجویزکیا ہے۔
"ادیس ؔابابا تو ایتھوپیاؔ کا دارالحکومت ہے"سہراب مالی نے چونکتے ہوئے کہا!!
 ”جی ہاں“نوجوان بولا ”افریقی زبان میں یہ الفاظ سفید گُلاب کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور یہاں اس سے مراد ٹیکسلاؔ کا گلاب ہے“۔
میں نے برجستہ کہا! 
"تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر خدا نے آپ کو بیٹے سے نوازا ہوتا تو یقینا آپ نے اس کا نام سیاہ چِن ٹیکسلا رکھنا تھا کیونکہ سنسکرت میں کالے گلاب کو اسی نام سے پُکارا جاتا ہے"۔
میرے بے لاگ تبصرے پر سب بے تحاشہ ہنسنے لگے۔
قدرے توقف کے بعد سہراب مالی نے استفسار کیا "مختلف زبانوں کا تذکرہ سن کر میرے ذہن میں اک سوال سر اٹھا رہا ہے کہ عہدِ قدیم میں ٹیکسلا کی مقامی زبان کونسی تھی؟"  
نیروبین جوان کہنے لگا کہ ایرانی حکمرانوں کے زیرِ تصرف خطے بابل اور شام میں آرامی زبان بولی جاتی تھی جسے میخی خط میں لکھا جاتا تھا ہخامنشی دور میں یہی زبان ٹیکسلا میں بھی سمجھی جانے لگی حالانکہ مقامی طور پر پراکرت رائج تھی چنانچہ ان کے باہمی اختلاط سے ایک نئی زبان وجود میں آئی جس نے خروشتی رسم الخط کو جنم دیا خصوصاً مہاراجہ اشوک کے زمانے میں اس کا خوب احیاء ہوا خروشتی میں لکھے مختلف نمونے ٹیکسلا کے متعدد کھنڈرات سے دریافت ہوئے ہیں یہ زبان پانچویں صدی عیسوی تک بولی جاتی رہی۔
جب ہم لوگ جنڈیالؔ مندر میں گھومنے کے بعد سیڑھیا ں پھلانگتے ہوئے چبوترے پر چڑھنے لگے تو سہراب مالی جو سب سے آگے تھے انہوں نے چیختے ہوئے رکنے کی ہدایت کی سامنے ایک مردہ سانپ ڈھیر ہوا پڑا تھا۔ بے شمار تیتئے اور چیونٹیا ں اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہی تھیں۔ اور چند گز دور ایک اونچے درخت پر کچھ گدِھ ہماری آمد سے چوکنے ہو کر بے چینی سے نظریں گاڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے تمام صورتِ حال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد سہرابؔ مالی سنجیدگی سے کہنے لگے۔
”دوستو! مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے یہ چبوترا پارسیوں کا خاموش مینار ہے جس پر گدھ انسانی نعشیں کھایا کرتے تھے اور بچی کھچی ہڈیاں اس ملحقہ کمرے میں پھینک کر ٹھکانے لگا دی جاتی ہوں گی“۔
سب نے چونک کر سہراب ماؔلی کی جانب دیکھا! مگر کسی نے بھی اس کے مفروضے کی تائید یا تردید نہیں کی۔تاہم یہ بات درست تھی کہ خاموش میناروں کے آس پاس اکثر گدھوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا جب آخری رسم کی ادائیگی کے لئے مردے کو لٹا دیا جاتا تو سب سے پہلے گدھ اس کی آنکھوں پر جھپٹتے تھے جو ان کا من بھاتا کھاجا تھا اس طرح آنجہانی کا رابطہ دنیا سے ہمیشہ کے لئے منقطع ہو جاتا۔شاید کسی ایسے ہی پس منظر میں بھگت کبیر نے یہ دوہا لکھا تھا
کاگا  سب تن کھئیو چن چن    کھئیو    ماس
دو نیناں مت کھئیو انہیں پیا ملن کی آس      
مندر کی تفصیلی سیر کے بعد جب ہم نیچے آئے تو کافی وقت بیت چکا تھا جلدی جلدی واپسی کا سامان کیا اور پختہ سڑک کی جانب ہو لئے۔ابھی ہم بمشکل چند قدم ہی چلے تھے کہ پولیس والوں کی ایک گشتی جماعت نے ہمیں روک لیا اور سرسری تفتیش کے بعد دوسرا راستہ اختیار کرنے کی ہدایت کی پوچھ گُچھ پر پتہ چلا کہ دن دھاڑے ایک مذہبی جماعت کے راہنما کوبے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ پولیس نے مجرموں کی تلا ش کیلئے تمام علاقے کی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ خاصا خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا اور لوگ نعرہ بازی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے اور آتی جاتی گاڑیوں پر پتھراؤ کر رہے تھے۔
سہراب ماؔلی جو ابھی تک خوب چہک رہے تھے اس ناگہانی واقعے کے پیش آنے کے بعد ایک دم خاموش سے ہوگئے اس کے چہرے سے پریشانی کے آثار متر شح تھے یوں لگتا تھا جیسے اندر ہی اندر اسے کوئی گھن لگ گیا ہو۔گھر پہنچتے ہی اس نے سکھ کا سانس لیا میں نے اس قدر خاموشی کی وجہ پوچھی تو وہ ایک دم پھٹ پڑا۔
"میں اس سنہرے دور کے متعلق سوچ رہا ہوں کہ جب ٹیکسلا کی پر امن فضاء میں جینی، بدھسٹ ،ہندو، آتش پرست، زرتشتی اور دیگر کئی مذاہب کے لوگ مل جل کر امن اور آشتی  رہتے تھے وہ اپنی مذہبی رسومات کی بجا آوری میں قطعاً آزاد تھے کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا اور اس کثیر جہتی معاشرے میں مکمل مذہبی ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ مگر کیا وجہ ہے کہ آج ایک ہی دین کے پیرو کار باہم دست و گریباں ہیں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں مذہبی رواداری کا نام و نشان تک نہیں ہے کیا اپنے آپ کو روشن خیال اور تہذیب یافتہ کہلوانے والے معاشروں  کا یہی معیار ہوتا ہے۔۔۔؟
وہ جزبات کی رو میں بہتا ہی چلا جا رہا تھا مگر میرا دھیان کہیں اور بٹا ہو اتھا۔۔۔۔۔۔۔مجھے تو یہ فکر دامن گیر تھی کہ کیا واقعی خونخوار گِدھوں کی نسل آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

ملتے جلتے آرٹیکلز