آن لائن اردو لغت مفصل تلاش کے ساتھ
https://www.urdulughat.pk/Post/urdu-classical-adab-zinda-hai
قدیم ہندوستانی راجواڑوں میں نوخیز دوشیزاؤں کو کتخدائی اور سوئمبر سے قبل عجیب وغریب رسومات سے گزرنا پڑتاتھا۔ پشتینی خادمائیں خاندانی خفیہ نسخوں کی مدد سے اناجوں، سوکھے پھولوں، پھلوں، بیجوں، نباتات کی چھٹک پھٹک اورحیوانات کے دودھ، چربیوں کی آمیزش سے وہ نادر حسن بخش، تازگی اور ناز کی عطا کرنے والے ابٹن بناتیں جو حسنِ نوخیزاں کو مزید چار چاند لگادیتے۔ دائیاں، مشاطائیں، مامائیں، اصیلیں، خواصیں اور مغلانیاں اپنی انگلیوں سے بین کر، پوروں سے مسل کر، چھاج پر چھٹک پھٹک، جھاڑ پونچھ، لکڑی کے کوٹی ڈنڈے یا پتھر کے سِل بٹّے پر نہایت احتیاط سے یہ خاندانی نسخے تیار کرتیں اور بڑی راز داری برتی جاتی کہ دائمی خوشبو میں بسانے والے یہ نسخہ جات قدیمی، روایتی اورخاندانی پہچان سمجھے جاتے تھے۔ ان اُبٹنوں میں سے بعض کو تو بچیوں کی پیدائش سے ہی ناریل کے تیل، اصل شہد، صحت بخش اجزاء، روح افزا معطر پھولوں کے عرق اور عطر سے گوندھ کر ان کی نازک جلد پر لیپا پوتا اورمسلا مَلاجاتا۔ چاولوں کی پچ، بیسن، ہلدی، صندل، یاسمین اور جوہی کی کلیاں، عرق گلاب، دہی اور شہد ملے یہ ملغوبے نہایت احتیاط سے رگڑ رگڑ کر چہرے، ہاتھوں، پاؤں اور پورے جسم کی صفائی ستھرائی اورخوبصورتی اجاگر کرنے کے کام آتے۔ پھر بیکری یا گائے کے دودھ سے نہلا کر عرق گلاب، موتیے، رات کی رانی، خس، چندن یا دوسرے دیسی عطروں میں بسادیا جاتا۔ اگر ،عود کی دھونیاں رمائی جاتیں۔ سانسیں تک معطر کرنے کو ملیٹھی، الائچیاں، پان کی گلوریاں، خوشبو کیوڑے میں بسی ہوئی کھلائی جاتیں۔ سر کے بالوں کو ریٹھے، آملے، بہیڑے، سیکاکائی، دہی، شہد اور تازہ انڈوں سے دھوکر دھنیے کی کچی دھانی میں چنبیلی کا تیل ملاکر لگایا جاتا تو زلفوں کی ناگنیں خوامخواہ ہی پھنکارنے لگتیں۔ چاند سے اجلے چہرے پر سولہ سنگھار، بارہ ابھرن لیے ایک سو اکاسی زیورات سے لدی پھندی، سونے سے پیلی ہوتی اورجگمگاتے جواہرات سے دمکتی ہوئی یہ دلہنیں یوں شعائیں اور شعلے بکھیرنے لگتیں کہ خود ان سے ان کا اپنا جوبن اور زیورات سنبھالے نہ سنبھل سکتے۔ سولہ سنگھار جو اس زمانے میں مروّج تھے ان سے مراد ممیرا سرمہ، کالاکاجل، مسی، مسواک، مانگ سیدھ، سندھیر سندھور، مہندی متی، عطر پھریر، ابٹن بیسن، تیل، پھلیل، دنداسہ پان، ابرق، بسمہ وسمہ، تلک، نظر بٹو اورموم لی جاتی تھی۔ یہ آ جکل کے پاؤڈر واؤڈر، روج، کریمیں، غازے، لپ اسٹکیں اورآئی شیڈو تو بہت دیر میں آئے۔ ’’بارہ ابھرن، سولہ سنگھار‘‘ میں ’’بارہ ابھرن‘‘ سر،پیشانی، کان، ناک، گلا سینہ، بازو، ہاتھ، کمر پاؤں اور ایڑھی کے زیورات کو کہاجاتا تھا۔ غسل کرنے، تیل لگانے، سر گوندھنے، چندن پھیرنے، سرکا کوئی زیور پہننے، کوئی ہار پہننے، مہندی لگانے، کمر میں کمر بند سجانے، پان کھانے، پاؤں کے زیور پہننے، کاجل لگانے، بندے اورنتھ پہننے وغیرہ کے مجموعی تاثر کو ہی” بارہ ابھرن، سولہ سنگھار“ سے تشبیہ دی جاتی تھی۔
زیورات کے عجیب وغریب نام ہوا کرتے تھے۔ چند زیورات تو عالمگیری شہرت کی بناء پر برصغیر کے ہر شہر قصبے میں مشہور ہوئے، جبکہ چند ایک کی شہرت محض علاقائی ہی رہی ،مثلاً ’’ہول دلی‘‘ جو کہ کہربا کی تعویذ پر آیتِ کریمہ لکھی ہوئی صرف دلّی کی بیگمات کا خاص زیور تھا۔ منگل سوتر یعنی کالے موتیوں سے بنی مالا ہندو سہاگن عورتوں کی خاص نشانی تھی، جسے صرف مرنے کے بعد ہی گلے سے اتارا جاسکتا تھا۔ مینڈھیوں میں گندھے بینے، ہشت پہلو، شاہ بانو، جھپکا، سنگھار پٹی، چمپاکلی، مکٹھ، کلغی، تاج، جھومر، کم کم، طلائی سیس پھول، ٹیکا، سر اورماتھے کے زیورات تھے۔ بالوں میں موتی، کلپ، چٹیا میں گندھے عجیب وغریب زیورات، چٹکلے، لڑیاں، جوڑے بند، ناک میں نتھلی، پڑو پی نتھ، ایک موتی والی نتھ، ٹوپا، پوپا، بولا، کیل، بوندی، موتی، لونگ، ہیرا، تولے، توپے، کلی، بلاق وغیرہ پہنا جاتا، ناکتخدا کنواری لڑکیاں، بالیاں محض لونگ یا چھلایا دھاگا ہی پہنے رہتیں۔ کانوں میں ہیرے، کلیاں، پھول، بالیاں، بالے، بجلیاں، سادیاں، انتیاں، دوانتیاں، لاکھ لاکھ بھاؤ بتاتی ہوئی، جگنو، جھمکے، چھپکے، مگر کانٹے، کان پڑے، بگڑا آویزے، کرن پھول، ٹاپس، بندے، بند کیاں، جھالے، مرکیاں، جھاپے، انکڑیاں، دبگڑا، پتے، جوڑی، کانٹے، موتی پہنے جاتے۔ باہوں میں بازو بند، کڑے، چوڑے، بجوٹھاچوڑیاں، پری چھم، کنگن، ہاتھی دانت کی پورے بازوؤں کو بھردینے والے چوڑیوں کے سیٹ (جوموہنجوداڑو سے برآمد کردہ رقاصہ کے مجسمے نے بھی پہن رکھے تھے اور چار ہزار قبلِ مسیح سے لیکر آج تک سندھ، چولستان وغیرہ میں پہنے جارہے ہیں) ،ہتھیلی پر چمنبہ، پنجہ جہانگیری (جسے ملکہ نورجہاں نے اپنی ہتھیلی کی جلی ہوئی پشت کے داغ کو جھپانے کے لیے ایجاد کیا)، انگلیوں میں چھلے ( جن کے لیے پنجاب کی لوک موسیقی میں بے شمار گیت تخلیق ہوئے)، انگوٹھیاں، انگشتریاں، زنجیریاں، دو یا تین انگلیوں میں اکٹھی پہنے جانے والی انگوٹھیاں، انگوٹھا (انگوٹھے میں پہنے جانے والی بڑی سی انگوٹھی کا نام)، ناخن( پوروں پر پہنے جانے والے زیور کا نام)، اس کے علاوہ ’’چھاپ‘‘ جس کے لیے کہا گیا،” چھاپ تلک سب چھین لی، موسے نیناں ملائی کے۔“
گلے میں پہننے کے زیورات میں ہار، ہسی، ہنسلی، تعویذ،دھگدھگی، لاکٹ، چندن ہار، نولکھا ہار، کٹ مالا، مالا، گلو بند، رانی ہار، ڈھولنے، ہیکل ٹکڑیاں، زنجیر، زنجیریاں، ست لڑا، پنج لڑا، نولڑا، گیارہ لڑا، پھل وینا، آڑھی ہیکل، کمر میں پہننے کے لیے مرصع بیلٹ، کمر جھول، پٹی، کمرپٹی، زنجیریاں، جھالرپٹی، زچہ گیری، پٹکے، پاؤں میں پہننے کے لیے پازیب، جھانجھن، پائل، خلخال، لچھے، چھم چھم، گھنگھرو، گھنگھرو لگی زنجیریاں، پینجڑیاں، پونچھیاں، پیر پونچھیاں، ٹخنوں پر پیر اگڑے، پاؤں کے انگوٹھے میں ’’آرسی‘‘( جس کے لیے بے شمار کہاوتیں مشہور ہوئیں مثلاً ’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘‘ اور ’’تولہ بھر کی آرسی، نانی بولے فارسی‘‘ وغیرہ وغیرہ،شیشہ جڑی یہ ’’آرسی‘‘ بیچاری خود چیں بول کر غائب مگر کہاوتیں، ابھی متروک نہیں ہوئیں)، پاؤں کی انگلیوں میں بچھوا، چھلے، پیر پنجے، انگوٹھیاں وغیرہ وغیرہ۔
دیگر زیورات میں کانگڑے، بی ہاگڑے، رام جھول، گوکھرو، تلسی، رتن انجلی، جھلمل، زیتون، ستلج، بسنتی، بٹن، کف لنک، پھول کرن، کڑیاں،جھڑیاں، تختیاں، جوشن، موتی، چھٹکیاں، شام،شیام اورکتنے ہی اور اَن گنت نام ہیں جو وقت کی دھول سے معدوم ہوکر گمنامی کے تاریک اندھیروں میں جاپڑے ہیں۔ ٹاپس بروچ، پنیں وغیرہ جنھیں ماڈرن زیورات سمجھا جاتا ہے، انھیں ٹیکسلا میوزیم تک میں دیکھ لیجیے۔ مانگ پٹی، بند، پٹکے، بوندیاں، شبنم،جالیاں، بانک، امام ضامن، لچیاں، لچھیاں، لالڑیاں، اُٹھائیاں، سہاگ، ڈولے،، ڈولیاں، پونچھیاں، بچھوے، تہذیب، بچھویہ، سبھی زیورات کے نام تھے جواب ماند پڑچکے ہیں یا پڑتے جارہے ہیں۔ جڑاؤ زیورات کے نام علیحدہ رکھے جاتے تھے۔ نگینوں کی پہچان اور درجہ بندی سے مختلف نام بھی مروج رہے مثلاً صدف، یاقوت، زمرد، نیلم اورہیرے ملی وجنتی مالا،سفید موتیوں کی سدھ ایکاولی اس کے علاوہ پورب، پچھم، اتر، دکھن چاروں کھونٹ کی راج دھانیوں میں ایک سے ایک، الگ، منفرد، اپنے اپنے علیحدہ زیورات مروج تھے۔ راجستھانی، سندھی، کشمیری، صحرائی زیورات کی اپنی ایک الگ ہی دنیا تھی جو زیادہ تر اجلی چاندی، چندن اور لاکھ کی بھرت، روشنائی اور رنگ وروغن کی آمیزش اورجڑاؤ نگوں، نگینوں، موتیوں کی بنا پر اندھیرا پڑے جھلملاتے، کھل کر ہنستے تھے۔ بلوچی، سندھی، مکرا نی، پشتون زیورات کی طرح پنجابی زیورات کی بھی ایک الگ ہی دنیا تھی اور ابھی تک ہے۔ آج اگر لوگوں کو طلائی کنج، چمپا کلی، کنٹھ مالا، حلقہ ہائے بینیِ، بازو بند، شاہ بانو، مکھٹاولی پہنچی، چوہے، دتی، آرسی، نونگے مگر، ہیکل، بولے، مالا ہائے اشرفی، وجنتی مالا، شیکھر ہار، سکہ کلمہ اور سنگھار پٹی یاد نہیں رہی تو بھی نِت نئے فیشن، ڈیزائن کے زیورات ہاتھوں اورمشینوں کی مدد سے گھڑے جارہے ہیں اوربقول کبیر…
کبرا مالا کاٹھ کی بہت جتن کا پھیر
مالا سانس اسانس کی، جا میں گانٹھ نہ میر
جب تک سانس کی مالائیں چلتی ہیں، نت نئی دیدہ زیب مالائیں گھڑی جاتی رہیں گی
Your email address will not be published. Required fields are marked *
3 Comment
Fletch Skinner
Cuppa the bee's knees the full monty bloke cockup pear shaped bubble and squeak lavatory naff, chip shop bodge burke do one have.!
ReplyHans Down
Dropped a clanger up the kyver easy peasy vagabond victoria sponge Charles tinkety tonk old fruit argy.!
ReplyHans Down
Dropped a clanger up the kyver easy peasy vagabond victoria sponge Charles tinkety tonk old fruit argy.!
ReplyChauffina Carr
Cuppa the bee's knees the full monty bloke cockup pear shaped bubble and squeak lavatory naff, chip shop bodge burke do one have.!
Reply